جیسا کہ نمونہ کے طور پر اپنے ماضی سے پہلے مواطن میں اور اس طرح مختلف جگہ فرمایا ہے: «أَيُّهَا النَّاسُ! إِنِّي أُوْشَكُ أَنْ أُدْعَى فَأُجِيبَ، وَإِنِّي مَسْؤُولٌ وَأَنْتُمْ مَسْؤُولُونَ، فَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ خَلِيفَتَيْنِ: كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، نَبَّأَنِي بِذَلِكَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ»؛ «اے لوگوں! میں نزدیک کیا گیا ہوں کہ میں پکاروں، پس اجابت کروں میں بھی مسؤل ہوں، تم بھی، مسؤل ہو؛ پس میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں: ایک میری عترت یعنی میرے اہل بیت اور ایک قرآن مجید اگر تم ان دونوں سے متمسک رہوگے، تو کبھی میرے بعد گمراہ نہ ہوگے پس تم دیکھو میرے بعد ان دونوں کے ساتھ کیا کروگے اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے حتیٰ کے حوض پر دونوں میرے پاس آئیں گے، مجھے اس نے خبر دی ہے جو باریک بین اور آگاہ ہے»۔ یہ بہت اہم اور بنیادی حدیث ہے جو «حدیث ثقلین» کے نام سے مشہور ہے اور یہ قرآن و خلافت اور تبعاً اہل بیت کی حاکمیت کے ساتھ آنحضرت کے بعد خدا کی جانب سے اہل بیت سے متمسّک ہونے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے آنحضرت کے تیس اصحاب سے زیادہ کے وسیلے سے جیسے سلمان فارسی، ابوذر غفّاری، ابو سعید خدری، زید بن أرقم، جابر بن عبد اللہ انصاری، حذیفہ بن اسید، زید بن ثابت، عبد الرحمٰن بن عوف، سعد بن أبی وقاص، جبیر بن مطعم، امّ سلمہ، ابو رافع،